اشاعتیں

آہ وہ مسکراتا چہرہ

میں ویگن پر حب سے بیلہ جارہا تھا۔ویگن نے جب اوتھل میں اسٹاپ کیا تو ایک وجہیہ دراز قد شخص گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا۔جو سفید کپڑے اور سیاہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔گاڑی میں نظر ڈالتے ہوئے اس نے کنڈیکٹر سے پوچھا سیٹ ملے گی؟ کنڈیکٹر نے کہا سر ڈنڈا سیٹ خالی ہے۔اسی دوران گاڑی میں موجود اس کے ایک  شاگرد نے کہا ،سر آپ میری سیٹ پر بیٹھیں ڈنڈا سیٹ پر میں بیٹھتاہوں۔لیکن اس نے  اپنے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا نہیں یار میں ڈنڈا سیٹ کا عادی ہوں کیونکہ ہم اوتھل سے سوار ہونے والوں کے نصیب میں ڈنڈا سیٹ ہی ہوتی ہے۔ویسے بھی بیلہ کونسا دور ہے۔ آدھا گھنٹے کی تو مسافت ہے۔جب وہ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو بڑی تکلیف سے بیٹھے کیونکہ ایک تو وہ کافی دراز قد تھے دوسرے ڈنڈا سیٹ نہایت تنگ اورتکلیف دہ ہوتی ہے۔جب سفر شروع ہوا تو پتہ نہیں چلا کہ بیلہ کیسے پہنچا۔ کیونکہ موصوف کافی دلچسپ انسان تھے اور مختلف موضوعات پر دوران سفر گفتگو کرتے رہے۔ آج جب مجھے سوشل میڈیا پر ماسٹر احمد خان ہمدم صاحب کی وفات کا علم ہوا تو وہ سفرمیری یاداشت کے پردہ اسکرین پر

کلین پاکستان اور ہمارا معاشرہ

کچھ عرصہ قبل ہمارے وزیراعظم صاحب دستانے پہنے ہاتھوں سے ایک ایسی سڑک پر جھاڑو بیٹ کے انداز میں پکڑکر کلین پاکستان مہم کا آغاز کرتےہوئے نظر آئے جس پر شاید خوردبین کی مدد سے بھی کچرہ نظر نہ آئے۔ وزیراعظم صاحب نے صفائی مہم کا آغاز کیاکیا اچھے بھلے لوگ جو ایک قدم بھی زمین پر رکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ملک بھر کی گلی کوچوں میں فوٹوسیشن کی حد تک ہی سہی دوگز لمبا جھاڑواپنے نرم ونازک ہاتھوں میں تھامے خاکروبوں کے شانہ بشانہ صفائی کرتے ہوئے نظر آئےکہ خاکروبوں کو بھی پہلی بار اپنے پیشے کی عظمت کا احساس ہوا اور وہ اپنی قسمت پر ناز کرنے لگے۔ ہم نے سوچا شاید اب ہمارے کپتان پاکستان سے گندگی کوبالکل اسی طرح کلین بولڈ کریں گے جس طرح وہ مخالف بیٹسمین کو آوٹ کرتے تھے۔لیکن یہ محض ہماری خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔یہ مہم چندروز کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دوبارہ سرابھارنے لگے اور کھلا چیلنج کرنے لگے کہ روک سکتے ہو تو روک لو۔ہم لوگوں نے ایک عجیب و غریب طریقہ اپنایا ہوا ہے۔وہ کام جو روزانہ اور مستقل مزاجی سے کرنے ہوتے ہیں لیکن ہم ان کوانجام دینےکے لیے خاص مواقع مقرر کئے ہوئے ہیں ۔

انگلیوں کا سہارہ

عام طورپر انسان کے ہاتھوں اور پاوں کی کل  ملاکر بیس انگلیاں ہوتی ہیں۔لیکن اللہ پاک کی قادرالمطلق ذات چاہے تو کسی کو کم یا زیادہ بھی دیتی ہے۔ہاتھ اور پاوں کی چار چار مونث جبکہ ایک ایک مذکر یعنی انگوٹھا ہوتا ہے۔جوکہ فربہ تو ہے لیکن اپنی ساتھیوں سے عموما چھوٹا ہی ہوتا ہے۔یہ تو تمہید تھی۔ورنہ میرا موضوع انگلیوں کی تعداد یا تذکیر و تانیث نہیں بلکہ اہل زبان نے اپنی بات سمجھانے کے لیے انگلیوں کا کتنا زیادہ استعمال (محاورة)کیا ہے۔اس پر کچھ لکھنے کو دل کررہاہے۔   اگر دو یا زیادہ لوگوں کے درمیان فرق ظاہر کرنا ہو تو انگلیوں کی مثال دیکر سمجھایا جاتا ہے۔ سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلنے کی صورت میں انگلی ٹیڑھی کرنے کا تیربہ ہدف نسخہ بھی بتایا گیا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ *ہم نے جب بھی اس مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کی اپنی ہی انگلیاں زخمی کربیٹھے۔* حیرت کے اظہار کے لیے دانتوں سے انگلیوں کی درگت بنانا پڑتی ہے۔اسی طرح کسی کے پکائے ہوئے کھانے کی تعریف کرنا مقصود ہو تو بعض لوگ فعلا اور بعض قولا انگلیاں چباکر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔کسی انسان کو نچانے کے لیے بھی انگلیوں کا سہارہ لیا جاتا ہے۔ کسی کی خ

سال نو مبارک

ھماری زندگی کا ایک اور سال ختم ہونے جارہا ہے اور ایک نیا سال شروع ہونے کو ہے ۔ہمیشہ کی طرح جب یہ سال شروع ہوا تھا تو بہت سی حسرتیں اور امیدیں اپنے ساتھ لایا تھااور کئی ادھورے خواب پورے کرنے کی امنگ لیکر آیا تھا لیکن کتنی حسرتیں ،کتنے خواب پورے ہوئے اورکتنی حسرتیں اور خواب پورے نہ ہوئےاگر جائزہ لیاجائے تو ہرانسان کی کیفیت اس لحاظ سے مختلف ہوگی ۔کچھ لوگ زیادہ کامیاب رہے ہوں گے تو کچھ ناکام رہے ہوں گے۔دوستوں زندگی اسی کانام ہے ۔ایام،ماہ وسال تو زمانے کے پیمانے ھیں  ۔ورنہ زمانہ تو رواں دواں ہے ازل سے لےکر ابد تک۔ لہذاہمیں اپنی زندگی میں معاشرے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔کیونکہ زندگی تو ہرحال میں گذرہی جاتی ہےلیکن اگر ہم کچھ اچھے کام کرجائیں گے تو آنے والے لوگ ہمیں اچھے الفاظ سے یاد کریں گے۔ آپ سب کو آنے والا سال بہت بہت مبارک ہو ۔دعا ہیکہ 2019 آپ کے لیے ڈھیر ساری خوشیاں لائے۔آمین۔

اپنی زندگی خود جئیں۔

جب سےانسان نے اس دنیامیں قدم رکھا ہے تب سےوہ اپنے بودوباش اوررہہن سہن کےعمل کو بہترسےبہتر اورجدید سے جدید تر بنانے کی تگ ودو میں لگا ہوا ہےجوانسان کی فطری اساس ہے۔ ہرایک انسان کو معاشرےمیں بہترین مقام حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور یہ اس کابنیادی حق ہے لیکن ہمیں اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اور اپنی پسند کے مطابق زندگی گذارنے کا انداز(لائف اسٹائل) اختیار کرنا چاہیے آپ جس قسم کے کپڑے پہننا چاہتے ہیں اور آپ کو  اللہ پاک نے قوت خرید دی ہے وہی خریدیں اور جوسلائی کروانا آپ کو اچھی لگتی ہےوہی کروائیں جوچپل آپکو پسند ہے وہی خریدیں جوسواری آپ افورڈکرسکتے ہیں وہی خریدیدیں۔ اپنی زندگی خود جئیں ۔لوگوں کی بیجا تنقید کو نظراندازکردیں۔ اگرآپ نے لوگوں کی پسند ونا پسند کے سانچے میں اپنی زندگی کوڈھالنے کی کوشش کی تو دوبارہ سے اپنی زندگی میں واپس آنا بہت مشکل ہوجائے گا ۔لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کی تنقید و فضول مشورے کا اثر نہیں لیتا اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیتا ہے تو وہ بےجا تنقید ومشوروں سے اجتناب کرتے ہیں۔اور آپ اپنی زندگی خود جینا شروع کردیتے ہیں ۔اپنے بلندکردار۔ اپنی حیثیت اورایک

والدین کے لیے بہترین مشورے Best suggestions for parents

1 سے 12 سال تک کی عمر کے بچوں میں کِن مہارتوں (skills) پرکام ہونا چاہئیے؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ علم و آگاہی، تدبیر، اور حکمتِ عملی سے کام لیا جائے تو بچّے کے دماغ کی وائرنگ میں وہ ضروری tools انجیکٹ کئے جا سکتے ہیں جن کی بچے کی دنیا میں دستیابی اُس کی دنیائے اکیڈیمکس یعنی تحصیلِ علم کے سفر میں اُس کی کامیابی کو یقینی بنا ڈالے گی۔ نِیز، عملی زندگی میں بھی۔ بچہ گھر میں ہے یا سکول میں، یہ وہ پانچ بڑے زون یا areas ہیں جن پر کام کرنا ہوتا ہے: 1- ادراکی نشونما Cognitive Skills 2- سماجی/معاشرتی یعنی دوسروں سے ہم ربط ہونے، اُن سے گھل مل کررہنےکی تربیت Social Skills -3 لینگویج سکِلز یعنی چاروں: پڑھنا، لکھنا، سننا اور اظہار کرنا 4- فائن موٹر سکِلز Fine Motor Skills 5- گراس موٹر سکِلز Gross Motor Skills اِن میں سے ہر skill کی عمدہ لرننگ اِس طور ممکن ہے کہ عمر کی ہر سطح پر ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ الگ الگ activities کرانے کا اہتمام کیا جائے۔ ایک سال کی عمر، دو سال، تین سال، چار سال ۔۔۔ ہر سطح پر پہلے سے