میں ویگن پر حب سے بیلہ جارہا تھا۔ویگن نے جب اوتھل میں اسٹاپ کیا تو ایک وجہیہ دراز قد شخص گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا۔جو سفید کپڑے اور سیاہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔گاڑی میں نظر ڈالتے ہوئے اس نے کنڈیکٹر سے پوچھا سیٹ ملے گی؟ کنڈیکٹر نے کہا سر ڈنڈا سیٹ خالی ہے۔اسی دوران گاڑی میں موجود اس کے ایک شاگرد نے کہا ،سر آپ میری سیٹ پر بیٹھیں ڈنڈا سیٹ پر میں بیٹھتاہوں۔لیکن اس نے اپنے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا نہیں یار میں ڈنڈا سیٹ کا عادی ہوں کیونکہ ہم اوتھل سے سوار ہونے والوں کے نصیب میں ڈنڈا سیٹ ہی ہوتی ہے۔ویسے بھی بیلہ کونسا دور ہے۔ آدھا گھنٹے کی تو مسافت ہے۔جب وہ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو بڑی تکلیف سے بیٹھے کیونکہ ایک تو وہ کافی دراز قد تھے دوسرے ڈنڈا سیٹ نہایت تنگ اورتکلیف دہ ہوتی ہے۔جب سفر شروع ہوا تو پتہ نہیں چلا کہ بیلہ کیسے پہنچا۔ کیونکہ موصوف کافی دلچسپ انسان تھے اور مختلف موضوعات پر دوران سفر گفتگو کرتے رہے۔ آج جب مجھے سوشل میڈیا پر ماسٹر احمد خان ہمدم صاحب کی وفات کا علم ہوا تو وہ سفرمیری یاداشت کے پردہ اسکرین پر